جب جینے کا شوق تھا تو دشمن ہزار تھے اب مرنا چاہتا ہوں تو قاتل نہیں ملتا۔
کمال بات یہ ہے کہ لفظوں سے ہی خاموشی ٹوٹتی ہے اور لفظ ہی خاموش کر دیتے ہیں
لوگ اکڑ کر ایسے جیتے ہیں جیسے آب حیات پیتے ہیں۔
کاش کوئی تو ایسا ہو جو اندر باہر جیسا ہو۔
بہت بھیڑ تھی ان کے دل میں خود نہ نکلتے تو نکال دیے جاتے۔
اس لیے تو زمانے میں اجنبی ہوں میں کہ سارے لوگ فرشتے ہیں آدمی ہوں میں۔
یہ تو وہ دکھ ہیں جو بتائے ہم نے اب وہ سوچو جو چھپائے ہوں گے۔
چلتے رہیں گے قافلے میرے بعد بھی یہاں اک ستارہ ٹوٹ جانے سے فلک تنہا نہیں ہوتا۔
یہاں قدم قدم پر نئے فنکار ملتے ہیں لیکن قسمت والوں کو سچے یار ملتے ہیں۔
0 Comments