نکلنا خلد سے آدم کا سنتے ائے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کو حاجت روا کرے کوئی
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
بے در و دیوار سا ایک گھر بنانا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسبان کوئی نہ ہو
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشاے اہل کرم دیکھتے ہیں
موت کا اک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
آگے اتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
عشق میں طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی ، درد بے دوا پایا
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالب
مفت ہاتھ ائے تو برا کیا ہے
0 Comments